تحریر: عبدالرحمن
سولہویں صدی میں اٹلانٹک اور پیسیفک کوملانے کا خواب بالاخر 1914میں پورا ہوا۔ (خواب کے دعویداروں میں پہلے تو صرف گورےتھے لیکن عمرچیمہ کےبعد اب پی ٹی آئی سب سےآگے ہے)۔ لیکن بیسویں صدی میں جیسا کام 77 کلومیٹر لمبی پانامہ نہر نےامریکی تجارت کیلیےکیا، حیرت ہے سات سمندرپار ہو کر بھی صرف ایک سال میں اس سے کہیں بڑا کام وہ پاکستان کےلیےکرگئی۔ کچھ کا توایسے کرگئی جیسے سندھ میں نہریں پشتہ ٹوٹنے سے فصلوں کا کرجاتی ہیں۔
کسے معلوم تھا پانامہ، نام تھوڑا فلمی، دشمن اسلام اوباما سے مماثلت اور فرہنگیوں کی ملکیت ہونے کے باوجود مذہبی سیاسی جماعتوں میں بھی اس قدر مقبول ہوگا کہ وہ اس کی خاطر بہت سے مثنون کام چھوڑ دیں گے اور پاکستان کے لیے اتنی با برکت بھی ثابت ہوگی کہ اس کےظہور کےبعدامیرالمومنین کے سب دعویدار پھر سے اکٹھے ہو جائیں گے اورایک بار پھر MMA خالصتا اسلام کی خاطر متحد ہوکر ناقدین کا منہ بند کر دے گی۔ اس پر مسرت موقع پر قوم کو ایک چھوٹی سی مبارک باد تو بنتی ہی ہے۔ سنا ہے لگتے ہاتھوں اتحاد کی بنیاد کی مضبوطی کے لیے قوم کو سمینٹ سریے کے لیے ھدیوں کا بھی یاد دلادیا گیاہے۔ کوئی شک نہیں اگر چندہ مناسب ہوا تو قوم مولونا فضل الرحمن کے مضبوط بازووں کے کلاوے میں ایسے ہی محفوظ ہو گی جیسے پہلے دور خلافت میں حضرت عمر کی تقلید میں فرات نہیں تو دریائے سوات کے کنارے، نہ کوئی آوارہ کتا بھوکا مرا اور نہ ہی مظلوم کی داد رسی میں دیر ہوئی، سواتی گواہ ہیں۔
اتحاد نے اس دفعہ کسی بھی ممکنہ سازش جو ان کے خلاف اکثر ہو ہی جاتی ہے، سے بچاو کی حکمت عملی بھی بنا لی ہے۔ کیونکہ پہلے دور خلافت میں عین اس وقت جب مولانا فضل اللہ شریعت کی بنیاد رکھنے ہی والے تھے دشمنان اسلام نے اور محاذ کھول دیے اور ان کی توجہ بٹ گئی۔
حالانکہ قوم گواہ ہے MMA نے ملت کے اتحاد اور اسلام کے بول بالا کے لیے سرحد (اس وقت یہی نام تھا) میں بورڈوں پر باپردہ تصویریں تک تو لگوا دیں۔ اس سے بڑھ کر اسلام کی خدمت کیا ہوگی؟ دیکھتے ہیں اب کی بار اتحاد ملت اوراسلام کی سر بلندی کے لیے قرعہ نئے امیدوار ISIS کے نام نکلتا ہے یا ایک دفعہ پھر مولانا فضل اللہ کے تجربات سے ہی مستفید ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔