تحریر: ساجد خان
کرشنا کماری کا نام سنتے ہیں آنکھوں کے سامنے جو چہرہ اُبھرتا ہے، وہ سری دیوی کی ہم عصر تیلگو فلموں کی معروف اداکارہ کا ہے، جو 1960ء سے لے کر 1980ء کی دہائی تک پردہء سیمیں پر چھائی رہی۔ لیکن یہ کرشنا کماری وہ نہیں بلکہ تھر کے انتہائی غریب کولھی خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ خاتون ہے، جس کا بچپن اپنے خاندان سمیت عمر کوٹ کے ایک وڈیرے کی نجی جیل میں گزرا۔
پھر یہ ہو ا کہ نہ وہ جیل رہی اور نہ اس جیل میں قید رہنے والی لڑکی کے پاؤں سے بندھی بیڑیاں۔ ظالم وڈیرے کی قید سے رہائی کے بعد اس لڑکی نے اپنے سر کی اجرک کو پرچم بنا لیا اور اب یہ پرچم پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں لہرانے جا رہا ہے۔ کرشنا کماری سینیٹ الیکشن کی عام نشستوں پر سندھ سے پیپلزپارٹی کی امیدوار ہوں گی اور ان کی لازمی جیت کی یقین دہانی بلاول بھٹو اور فریال ٹالپر نے کروا دی ہے۔
ننگر پارکر کے ہاری خاندان میں جگنو کولھی کے گھر پیدا ہونے والی کرشنا کی شادی سولہ سال کی عمر میں لال چند سے ہو گئی تھی۔ اس وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ لال چند نے شادی کے بعد بھی کرشنا کے نام سے جڑی علم کی لو کی مدھم نہیں ہونے دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرشنا 2013ء میں سندھ یونیورسٹی سے سماجیات میں ماسٹرز کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس دوران وہ تھر اور دیگر علاقوں کے پسماندہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بھی عملی کوشش کرتی رہیں۔
کرشنا کماری کے بھائی یونین کونسل بیرانو کے چیئرمین ہیں۔ کرشنا بھی اپنے بھائی کے ساتھ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئی تھیں۔ 1979ء میں فروری کے مہینے میں پیدا ہونے والی کرشنا پر یہ مہینہ اتنا مہربان ہے کہ 2018ء میں آنے والے اسی مہینے میں انہیں پاکستان کے ایوانِ بالا کے لیے منتخب کروائے جانے کی نوید سنائی گئی ہے لیکن کرشنا کماری کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو کرشنا کے خاندان میں ایک میناوتی بھی تھی۔
میناوتی انگریزوں کے خلاف لڑنے والے عظیم سندھی ہیرو روپلو کولھی کی شریکِ حیات تھیں۔ 1857ء میں جب انگریزوں نے ننگر پارکر کے راستے سندھ پر حملہ کیا تو مزاحمت کرنے والے ٹھاکر راجپوت مکھیہ رانا کرن سنگھ کے اگلے دستوں کی کمانڈ روپلو کولھی کے ہاتھوں میں تھی۔ 22 اگست 1859ء کو جب انگریز روپلو کولھی کو پکڑ کر تختہء دار پر لٹکانے کے لیے لے گئے تو میناوتی کی آواز اس کے کارونجھر پہاڑ جیسے مضبوط ارادوں کو کچھ اور جلا بخش رہی تھی۔
انگریز ٹھاکر رانا کرن سنگھ کا ٹھکانہ بتانے کے صلے میں روپلو کی جان بخشی کرنے کو تیار تھے۔ روپلو بدترین تشدد کے باوجود کچھ نہیں بولا۔ وہ تو وطن کے لیے جان دینے چلا تھا، وطن سے غداری اس کے خمیر میں نہیں تھی۔ ایسے میں میناوتی کی آواز کہ ’’روپلا! اگر تو نے انہیں کچھ بتایا تو پارکر کی کولھنیاں مجھے طعنے دیں گی، آئے دن کوسیں گی کہ وہ دیکھو غدار کی بیوی. میں تیرا مرا ہوا منہ تو دیکھ سکتی ہوں، اپنے آپ کو بیوہ تو قبول کر سکتی ہوں لیکن مجھے ایک غدار کی بیوی ہونا قبول نہیں‘‘۔ اور پھر ببول کے پیڑ سے لٹکی ہوئی روپلو کی لاش نہ صرف اس کی شریکِ حیات میناوتی کو کولھنیوں کے طعنوں سے بچا گئی بلکہ رہتی دُنیا کو یہ سبق بھی سکھا گئی کہ
چھو رہے تھے قاتلوں کے سر مرے پاؤں کے ساتھ
کس قدر اونچا تھا میں سولی پہ چڑھ جانے کے بعد